حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو اسلام سے وابستہ رکھے ہوئے ہیں ان کی ہدایت اور رہنمائی کا منبع قرآن کریم اور سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور یہ مسلمانوں کا مسلّمہ و متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآنی احکام کے مطابق پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک عالم اسلام کے لئے نمونہ عمل ہے جبکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ہدایت اور رہنمائی کے مطابق خواتین عالم کے لئے ماں، بیوی اور بیٹی ہر زاویہ نگاہ سے بہترین نمونہ عمل اور آئیڈیل شخصیت جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات ہے۔
علامہ ساجد نقوی نے ایام فاطمیہ (13 جمادی الاول تا 3 جمادی الثانی) کے آغاز پر اپنے پیغام میں کہا کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں فرامین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی حقیقت ہیں کہ جسے تمام مسلمان تسلیم کرتے ہیں۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا دخترِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کے حوالے سے احترام اور عقیدت اپنی جگہ لیکن ان کا یہ پہلو سب سے منفرد اور نمایاں ہے کہ وہ عالم نسواں کے لئے قیامت تک نمونہ عمل ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کے جو اصول اور نقوش چھوڑے ہیں وہ دائمی اور ابدی ہیں اور کسی ایک زمانے، معاشرے یا علاقے تک مخصوص اور مختص نہیں ہیں۔
ان کی نورانی اور معنوی زندگی ہر طرح کے احترام و اکرام کی سزاوار ہے، وہ نگاہ خدا میں تمام خواتین کا انتخاب ہیں ، انہوں نے اپنے کردار کی پاکیزگی سے خواتین کو معراج عطا کی، آپ سلام اللہ علیہا کاتنہا وجود اس بات پر مکمل گواہ ہے کہ خواتین عظیم درجات حاصل کرسکتی ہیں۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ موجودہ سنگین دور میں جب عالم نسواں میں فکری انتشار پیدا ہوچکا ہے اور ترقی و جدّت کے نام پر خواتین کا ہر معاشرے میں شدت سے استحصال کیا جارہا ہے ایسے حالات میں سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت اور کردار ہی واحد ذریعہ ہے جو دنیا بھر کی خواتین کو انحراف، استحصال، تعیش اور گناہوں سے بچاسکتا ہے۔
آزادی نسواں کی حدود و قیود ہر سوسائٹی نے مقرر کررکھی ہیں سوائے ان لوگوں کے جو مادر پدر آزاد ہیں اور کسی ضابطے، اخلاق اور قانون کے پابند نہیں اور یہی لوگ ایسے معاشروں کی تشکیل میں مصروف ہیں جہاں خواتین کی عزت و حرمت کو پامال کیا جائے اور مرد و زن کے اختلاط سے معاشروں میں بگاڑپیدا کیا جاسکے لہذا ان حالات میں امت مسلمہ خواتین کی آزادی کے ان اصولوں کی روشنی میں جدوجہد کرے جو جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی سیرت و کردار سے ماخوذ ہوں اور خواتین اپنی زندگیاں انہی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں کیونکہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی پرورش آغوش رسول میں ہوئی۔
خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنے ذاتی اور خاندانی معاملات سے لے کر اجتماعی معاملات تک ہر موقع پر سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شخصیت و کردار کو مدنظر رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی گود سے ایسی نیک سیرت نسلیں معاشرے کو فراہم کریں جو دنیا میں اسلامی انقلاب لانے کی استعداد رکھتی ہوں جیسا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی پاکیزہ گود سے حسن اور حسین علیہما السلام جیسی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے وقت اور تاریخ کے دھارے کا رخ موڑا۔
کیا خوب کہا علامہ اقبال نے: " بتولی باش و پنهان شو ازین عصر - که درغوش شبیری بگیری"